ساس بہو کے جھگڑے اگر وقت پر نہ نمٹائے جائیں توسنگیں صورتحال اختیار کرجاتے ہیں۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ خواتین اپنے طور پر خوشی فہمی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ بہنیں ہوں، ماں ، بیٹی ہوں، نند بھابھی ہو ں یا پھرسا س بہو اکثر ان رشتوں میں اونچ نیچ ہوجاتی ہے۔ بہو اگر خود کومظلوم سمجھ لے تو اسے ہر شخص خاص طور پر ساس اپنی دشمن لگتی ہے۔
رشتوں کو بوجھ نہ بنائیں
دراصل ہمارا معاشرہ لڑکیوں کی سوچ اور ان کے کردار کو اسی انداز میں ڈھالتا ہے۔ ایک مفکر کے بقول رشتوں کی مٹھاس برقرا ر رکھنے کے لیے انہیں ناموں (ماں، خالہ، ساس) سے آزاد کردینا چاہیےیعنی اگر بہو ساس کو ماں سمجھ لے تو گھر میں امن و امان رہے گا۔ ساس بھی بہو کو بیٹی مانے تو اس کے قریب ہوسکتی ہے۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ نئی اور پرانی نسل کے مابین حائل یہ دیوار بڑھتی چلی جارہی ہے۔ معاشرتی اقدار بھی اب تک وہی ہیں ‘یہاں خاندانی جھگڑوں سے نمٹنا اور اس کے بعد کے نتائج پورے خاندان کو ملیامیٹ کردیتے ہیں۔یہ رشتے اورتعلقات ہی تو ہوتے ہیں جو سب کےلیے اچھے یا برے، تلخ یا خوش کن تجربات بناتے ہیں۔ یاد رکھیں رشتوں کو بوجھ نہیں بنانا چاہیے۔ خوشی کے لمحات جتنے بھی ملیں انہیں مٹھی میں بند کرلیں۔ جو تعلق خوشی، دلچسپی اور اعتماد سے خالی ہوتا ہے اسے نبھاتے نبھاتے زندگی تو کٹ سکتی ہے مگر آپ خوش نہیں رہ سکتے۔ خوش کن تعلقات بھی خود بخود نہیں بن جاتے بلکہ انہیں بنانے اور پھرقائم رکھنے کے لیے بھی سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
’’تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے‘‘
مشترکہ خاندانی نظام جہاں مختلف شخصیتوں ، ضرورتوں اور مفادات وغیرہ کا ٹکرائو ہوتا ہے ایسے گھرانوں میں تعلقات بننے اور بگڑنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگتا۔ اب یہ خیال عام ہوچکا ہے کہ گھر میں جتنے کم افراد ہوں گے اسی قدر سکون اور خوشیاں ہوں گی۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے علیحدہ خاندانی نظام کو بخوشی اپنالیا ہے مگر یہ نہیں سوچا کہ اس کا بچوں پر کیا اثر پڑے گا۔بچوں کو دادا، دادی، پھپھو، چچا اور ایسے دوسرے رشتوں کی گرمجوشی اور اپنائیت سے محروم کردیتی ہے۔ ساس بہو کے جھگڑے کا اصل محور اختیارات کی تقسیم ہوتا ہے۔ محاورہ ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ساس بہو کے رشتے میں دونوں فریقین کے اپنے موقف ہوتے ہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک فریق حاوی تو کبھی دوسرا زیر، میاں صاحب اگر سارا دن آفس میں سر گھپاتے ہیں تو خاتون خانہ بھی گھر کے جھمیلوں اور رشتے داریوں کو نبھاتی ہیں۔
ڈراموں اور فلموں کی زندگی سےنکلیں
میڈیا کی آزادی نے بہت سے پوشیدہ معاملات کو براہ راست لوگوں کے سامنے کھول دیا ہے ۔ آج ہر گھر میں ہے ڈراموں اور فلموں نے متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین کو بہت متاثر کیا ہے۔ انہوں نے رشتوں کی نزاکتوں اور احساسات پر کہانیاں بناکر سماج کا منظر نامہ بدل دیا ہے۔ ساس بہو کے رشتے کی انفرادیت یہ ہے کہ دونوں خواتین خود کو مظلوم ظاہر کرتی ہیں‘ اب ایسے میں حالات اکثر قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو مگر کسی بھی فریق کو اسے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ رشتے جڑنے کے بجائے ٹوٹنے لگتے ہیں اور خود کار بکھر جاتے ہیں۔
گھروں کی تربیت کے ساتھ ساتھ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی طلباء کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور مثبت طرز فکر اختیار کریں۔ ہر رشتے کو سنبھالنے کی ذمہ داری صرف عورت پر نہیں ڈالنی چاہیے
وہ کسی بھی رشتے میں بندھی ہو اور نہ ہی مرد سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ سب درست کردے گا۔ رشتے میں شامل اونچ نیچ باہمی محبت سے دور کی جاسکتی ہے۔ ہر رشتے اور تعلق میں تمام فریقین کو اپنی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ یہ صرف کسی ایک انسان کی کوشش سے نہیں بنتےاور نہ بگڑتے ہیں۔
حالات سے سمجھوتا خوشیوں کا پیغام:بات پھر وہی ہے کہ ساس، بہو اور شوہر کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ ساس بہو کے لیے یہ سوچے کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر آئی ہے۔ بہو یہ تسلیم کرے کہ اس کا اصل گھر یہی ہے اور شوہر کو چاہیے کہ وہ دونوں کے حقوق اور مفادات کا خیال رکھے۔ بہرحال اس تمام صورتحال میں سب سےزیادہ حالات سے سمجھوتا لڑکی کو کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس کا اخلاقی فریضہ بھی ہے اور آئندہ زندگی کے لیے خوشی کا پیغام بھی۔ ہر انسا ن کی فطرت مختلف ہوتی ہے مگر رشتے میں اعتدال رکھا جائے میانہ روی اور درگزر سے کام لیا جائے۔ ایک دوسرے کی خامیوں کو نظر انداز کرکے گھر کا ماحول خوشگوار کھا جائے تو کسی بھی رشتے میں سمجھوتے اس قدر نہ کیے جائیں کہ وہ رشتے بوجھ معلوم ہوں‘ نہ ہی ان سے گٹھن محسوس ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں